حالیہ دنوں میں ایک اور نومولود اپنی زندگی کی جنگ ہار گیا ۔ اس موت کی زمہ داری پاکستان اور گلگت بلتستان حکومت اور اداروں کے سر پہ ہے ۔
9 اپریل 2022 کو سکردو کے ایک نجی ہسپتال میں مصطفیٰ کاظم کی ولادت ہوئی۔ ہسپتال انتظامیہ نے قبل از آپریشن بچوں کے ڈاکٹر اور نرسری کے موجودگی کی یقین دہانی بھی کرای۔ نومولود کی پیدائش کے بعد جب بچوں کے ڈاکٹر کی ضرورت پڑی تو انتظامیہ نے کہا کہ ہمارے ڈاکٹر صاحب فون نہیں اٹھا رہے لہذا آپ انہیں کسی اور ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ وہاں بیٹھے مسیحا نے بچے کی حالت کو جو کہ لمحہ بہ لمحہ بگڑ رہی تھی سنبھالنے کی کوشش کی۔ بچے کو فوراً آکسیجن فراہم کیا گیا اور نرسری میں داخل کرنے کا مشورہ دیا۔
جس نجی ہسپتال میں آپریشن ہوا تھا وہاں نرسری کے لیے فون کیا تو معلوم ہوا کہ نرسری تو دور وہاں آکسیجن تک کی سہولت موجود نہ تھی۔ نومولود مصطفیٰ کاظم کو ایمبولینس میں سی ایم ایچ ہسپتال سکردو منتقل کیا گیا جہاں نرسنگ سٹاف اور ڈاکٹرز نے محنت سے نومولود کی زندگی بچانے کی کوششیں کی۔ 12 اپریل کی شب مصطفیٰ کاظم اس دنیا سے رخصت ہوا۔ مگر جاتے جاتے یہ معصوم ہمارے بیچ کچھ سوال چھوڑ گیا۔
کیا بنیادی صحت کی سہولیات اس معصوم کا حق نہیں تھا؟
کیا زندگی اس کے بنیادی انسانی حقوق میں سے نہیں تھا؟
کیا اس معصوم کی زندگی اس قدر سستی تھی کہ اس نجی ہسپتال کے انتظامیہ نے کوشش تک نہ کی؟
اس نا انصافی کے خلاف ہم قانونی جنگ لڑیں گے انشاء اللہ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے مؤرخہ 17 اپریل بروزِ اتوار بوقت 4 بجے شام بمقام آغا ہادی چوک سکردو ہم ایک پرامن احتجاج ریکارڈ کروایا گیا، جس کے بعد عدالت میں انصاف اور اس نظام کی بہتری کی امید لے کر جائیں گے۔ اس تحریک کا مقصد ذاتی بغض و عناد یا انتقام نہیں بلکہ اس نظام کو چیلنج کرنا ہے جو ہر سال کئی ماؤں سے ان کے مصطفیٰ کاظم کو جدا کرتا ہے۔
اکیسویں صدی میں جہاں دنیا کتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے، وہاں عرضے بلتستان اپنے بنیادی حقوق کی جنگ میں ہیں۔
یہ خطہ عرضے بے آئین ہو نے کے ساتھ ساتھ بہت سے مہرومیوں کا شکار ہے، اور ان مہرومیوں کے لیے آواز بلند کرنے پے بھی پابندیاں لاحق ہے۔
صحت کا نظام انتہائی خستہ حالی کا شکار ہے ۔ گلگت بلتستان میں زچہ و بچہ کے اموات کی شرح بہت ذیادہ ہے ۔ صحت کی دستیابی ہی نہیں ہے ایسے میں سہولیات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
صحت کے شعبے میں سرکار مکمل طور پر فیل ہو گئی ہے اور پرائیویٹ اداروں اور شخصیات کو عوام کی جانوں سے کھیلنے کی مکمل چھوٹ دے دی گئی ہے ۔ ہیلتھ کمیشن فعال نہ ہونے کی وجہ سے کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے ۔