میرا ایک دوست اکثر و بیشتر ہونی انہونی واقعات سناتا رہتا ہے۔اور زیادہ تر واقعات مافوق الفطرت کے رنگ سے مزین ہوتے ہیں۔ ہم ان واقعات کو اس کی تخلیقی کاوش قرار دے کر یونہی ٹال دیتے ہیں۔ اب کی بار اس نے ایک ایسا ہی واقعہ جس کے تین زندہ گواہان کے دلیل کے ساتھ پیش کیا۔واقعہ یوں تھا کہ اگر کوئی شخص چاندنی رات کو گول سے سکردو اکیلے سفر کرے تو نر تھنگ کے بے آب وگیاہ میدان سےایک دلہن عروسی کپڑوں میں اچانک نمودار ہوکر گاڑی والے سے لفٹ مانگتی ہے۔ میرے دوست نے قدرے خوف آور لہجے میں بتایا کہ یہ واقعہ سکردو سے کھرمنگ سفر کرنے والے مرغی کی ڈٹسن والے کے ساتھ پیش آیا تھا جوصبح سویرے گول بازار میں بے ہوش پایا گیا تھا۔ اور دوسرا واقعہ ایک بینک والے کے ساتھ پیش آیا تھا جو پہلےواقعے کا سن کر دلہن دیکھنے کے لئے جان بوجھ کر اکیلے سفر پہ نکلے تھے۔
دونوں واقعات سن کر بھی ہم نے کوئی خاص رائے قائم نہیں کی۔اور اس کو بھی دوست کی جاسوسی ناول کی چھاپ قراردے کر اس کا مزاق اڑایا گیا۔ اس کہانی کے بعد پتہ نہیں کتنی خودساختہ کہانیاں سنائی گئیں اور کہانیوں کے ملبے تلے نر تھنگ کی کہانی بھی دب گئی۔
ایک دن راقم چھٹی لے کر اپنے گاوں گیا ہوا تھا۔ رات کو آفس سے فون آیا کہ صبح خپلو گنگچھے کسی کسان گروپ کو مشاہداتی دورے پہ لے کر جانا ہے۔ نوکری کی ہے تو نخرے کس بات کی۔ صبح سویرے موٹر سائیکل پہ ہمایوں پل پہنچ گیا۔ وہاں پولیس چیک ہوسٹ پہ موٹرسائيکل کھڑی کر کے کسانوں کے ساتھ سرکاری گاڑی میں خپلو روانہ ہوا۔ کسانوں کے ساتھ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا کہ مغرب کی آذان نے رات ہونے کی خبر دی۔ کسانوں کو گاڑی میں بٹھاتے بٹھاتے کافی وقت صرف ہوئے۔
ہمارا قافلہ سکردو کی جانب محو سفر ہوا۔ میں ہمایوں ہل ہر اتر گیا کیونکہ میں نے موٹر سائیکل لے کر سکردو جانا تھا۔ ہمارے ڈایریکٹر صاحب نے موٹرسائيکل اپنی گاڑی کے ڈالے میں باندھ کر لے جانے کا مشورہ بھی دیا مگر صاف ستھری اور نئی گاڑی میں اس طرح مناسب نہیں سمجھا۔اس طرح اہنی موٹرسائيکل پر اکیلے سفر پہ چل پڑا۔ پل کراس کیا ساری گاڑیاں پھڑاٹے لئے تیزی سے آگے نکل گئیں۔اب سڑک پہ اکیلا مسافر تھا۔ آسمان کی طرف دیکھا تو بہت جزباتی سا منظر تھا کہ چودیں کا چاند بھی بہت تیزی کے ساتھ میرے ہم سفر تھا۔ بس کیا تھا سفر بہت تنہا مگر پرجوش تھا۔ سامنے سے خال خال ہی کوئی گاڑی آتی۔ گول بازار میں روک کر موٹرسائيکل کا اچھی طرح جائزہ لیا اور چندا ماموں کو اشارہ دے کر سفر پھر شروع ہوا۔ پرسکون سفر تھا غالبا کچھ گنگناتا جارہا تھا کہ نر گاوں میں روشنی دیکھی۔ ہھر خیال آیا کہ نر گاوں کی وجہ سے اس بیاباں کا نام نر تھنگ پڑا ہ۔
نر تھنگ کا نام آتے ہی دوست کی سنائی ہوئی دلہن یاد آئی۔جسم میں جھرجھری سی محسوس ہوئی۔ پھر ذہن کے کسی گوشے سے دشمن وسوسے نے یاد دلایاکہ چودھویں کا چاند بھی ہے۔ اب زرا خوف کے احساسات نے بھی سر اٹھانے لگے۔ اب گنگنانے کی جگہ تلاوت اور دعاوں کی قرات نے لی۔ اپنے آپ کو تسلی دی کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ لیکن انجانے خوف میں غیر ارادی طور پر سایے والی جگھوں میں غور سے دلہن تلاش کرتا۔ خدا خدا کرکے سکردو کی طرف سے ایک گاڑی گولی کی طرح نکل گئی۔جان میں جان آگئی۔تازہ دم ہوگیا۔اہنی حالت ہہ ہنسی آگئی۔اب حالت ہر سکون تھا۔رفتار بھی معتدل تھا۔
اچانک کیا دیکھتا ہوں سرخ عروسی لباس میں ملبوس دلہن مجھ سےلفٹ مانگ رہی تھی۔ دلہن کے ساتھ سفید کپڑوں میں دلہابھی ہاتھ تھامے کھڑا تھا۔ میرا دل حلق میں آکر دھڑکنے لگا۔یہ ایسے موقع ہوتے ہیں کہ انسان سیکنڈوں سے بھی کم عرصے میں فیصلہ کرلیتا ہے اور اچھا فیصلہ کرتا ہے۔میں نے سوچا کہ غیر مرئی چیزوں سے کیا مقابلہ اور اس میدان میں بھاگ کے کہاں جانا۔ جو ہوگا دیکھا جائے گا اور میں نے موٹرسائيکل روک لی۔دونوں بھاگ کر میرے پاس آئے اوردلہن نے کہا کہ ہماری نئی نئی شادی ہوئی ہے اور ہم دعوت میں جا رہے ہیں۔ہماری بایک میں ایندھن ختم ہوا ہے۔مہربانی ہوگی اگر تھوڑا سا پیٹرول دے دیں۔ میں کچھ اور توقع کر رہا تھا ان کی درخواست سن کر میں نے کہا کہ آپ لوگوں کے پاس کوئی بوتل ہے تو دلہن نے پیتل کا چھوٹا سا صراحی نما بوتل اپنے پلو کے اوٹ سے نکال کر مجھے تھما دی۔ لمحوں میں بوتل بھر گئی۔
عطرکی خوشبو اور چوڑیوں کی کھنکھناہٹ مسلسل جاری رہی۔کچھ پوچھنے کی سکت مجھ میں رہی نہیں۔بس شکریے کے ساتھ وہ لوگ آگے نکل گئےمگر مڑ کر دیکھنے کی میں جسارت نہ کرسکا۔ ابھی کہانی ختم نہیں ہوئی۔۔ان دونوں سے چھٹکارا ہانے کے بعد اتنی رفتار بڑھائی کہ پتہ ہی نہی چلا کہ تھورگو ہڑی سے حسین آباد میں داخل ہوا تھا۔ حسین پل سے پہلے چڑھائی سیلابی پانی بپھرا ہوا تھا وہاں میرایکسیڈنٹ ہوگیا۔ اور بری طرح کیچڑ میں لت ہت ہو گیا تھا مگر اللہ نے کسی بڑے چوٹ سے بچایا تھا۔میں کیچڑ میں لوٹ پوٹ موٹر سائکل کو دھکا دے کر چلانے کی کوشش کر کررہا تھا عین اسی وقت وہ دونوں میرے میرےسامنے سے قہقہے لگاتے گزر گئے۔میں انگشت بدندان ان کو دیکھتا رہا کہ یہ دونوں تو گول جا رہے تھے۔
حسن شفقت دوستی