Culture of Baltistan (Pololo state)

بلتستان میں جشنِ مے فنگ کی ثقافتی اہمیت اور ایک نئے سال کی صبح

Share Post

ہر سال 20 دسمبر کی شب اور 21 دسمبر کے دن پورے بلتستان ڈویژن میں جشنِ مے فنگ اور لوسر یعنی نئے سال کا جشن منایا جاتا ہے مے فنگ یعنی آگ کا کھیل جس میں لوگ ہاتھوں میں مشعل لیکر کسی اونچی جگہ جاتے ہے اور دن لمبے رات چھوٹے ہونے اور سردی کا زور ٹوٹنے کی خوشی مناتے ہیں اور لوسر یعنی نئے سال کا جشن مناتے ہیں جو تبتی کلینڈر کے مطابق نئے سال کا دن ہے جشن مے فنگ کی ابتدا کے حوالے سے تاریخ میں کوئی خاص حوالہ نہیں مگر تبتی کلینڈر اور لوسر تہوار کی ابتدا کے بارے میں بتاتے ہیں کب شروع ہوا۔ جب سے انسان نے دنیا میں قدم رکھا ہے وہ وقت کی اہمیت کو جانتے ہوئے اس کو مختلف انداز اور طریقوں سے معلوم کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں سے ایک عظیم الشان شمسی کلینڈر انگلینڈ میں موجود پتھروں سے بنی قدیم کھڑکیوں جیسے ساخت ہیں جو قدیم دور میں وہاں کے لوگ کھیتی باڑی کے اور گرمیوں اور سردیوں کے موسم کے تعین کیلئے استعمال کرتے تھے۔ ایک مکمل کلینڈر قدیم سومیریوں نے آج سے پانچ ہزار سال قبل میسوپوٹیمیا موجودہ عراق میں بنائے تھے جس میں سال میں بارہ مہینے اور ایک مہینے میں 29-30 دن ہوتے تھے اور ہر چار سال میں ایک مہینے کا اضافہ کرتے تھے۔ البتہ ان کے کلینڈر میں ہفتے کا کوئی تصور نہیں تھا پہلی بار کلینڈر میں ہفتے کا آغاز بابُلیوں اکیسویں صدی قبلِ مسیح میں یعنی آج سے چار ہزار سال قبل کیا۔
تبتی کلینڈر کا آغاز 127 قبل از مسیح میں تبت کے بادشاہ نیاری ژھن پو کے دور میں ہوا۔ تبتی کلینڈر ابتدائی طور پر بون مذہب کے پیروکاروں نے ترتیب دیا تھا بون مذہب تبت کا اصل مذہب تھا جو وہیں پر ہی پروان چڑھا اور پھر اج تک اس کے پیروکار تبت اور لداخ میں موجود ہیں۔ تبتی کلینڈر ابتدائی طور پر شمسی کلینڈر تھا اور تبت کے لوگ پہلے لوگ تھے جنہوں نے دن کے گھٹنے اور رات کے بڑھنے اور رات کے گھٹنے اور دن کے بڑھنے کے دن کو یعنی 21 دسمبر کو جب رات کم اور دن لمبے ہوتے ہیں کو نئے سال کے آغاز کے طور پر شروع کیا۔ یہ سلسلہ ساتھویں صدی عیسوی تک جاری رہا لیکن جب تبت میں بدھ مت کا پرچار عام ہوا اور بون مذہب کے ماننے والوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا تو بون ثقافت میں بھی تبدیلیاں کیں گئیں۔ تبت کا پہلا بدھ بادشاہ سترونگ ژھن گمپو تھا جس نے چین کی شہزادی وٕئن چھن سے شادی کے بعد بدھ مت اختیار کرلیا اور پورے تبت میں بدھ مت کو فروغ دینا شروع کر دیا اس کے ساتھ ساتھ بون مذہب کے روایات میں بدھ مت کا عمل دخل شروع ہوگیا اور ساتھ میں تبتی کلینڈر جو ابتدائی طور پر شمسی کلینڈر تھا اس میں قمری سال کی آمیزش ہوگئی اور تبتی کلینڈر اپنے اصل حالت سے بدل گئی۔ موجودہ طور پر تبتی کلینڈر ایک شمسی و قمری کلینڈر ہے۔ جس میں مہینے چاند کے حساب سے بدلتے ہیں ۔ البتہ ہر دوسرے یا تیسرے سال بعد ایک مہینے کا اضافہ کیا جاتا ہے تاکہ سال برابر شمسی حساب سے چلتا رہے اسے وجہ سے نیا سال کسی ایک خاص دن میں نہیں ہوتا بلکہ ہر سال بدلتے رہتے ہیں جیسے کہ 2021 میں نیا سال 14 فروری کو منایا گیا 2022 میں 3 مارچ اور 2023 میں 20 فروری کو منایا جائے گا۔ نئے سال کو تبتی زبان میں لوسر یعنی لو مطلب سال اور سر مطلب نئے یعنی نیا سال کہتے ہیں۔ لوسر تہوار منانے کا آغاز تبت کے نویں بادشاہ پُودے گنیال (317-398ء) کے دور میں ہوا جو آج تک جاری ہے۔ کیونکہ کلینڈر میں تبدیلی کی وجہ سے نئے سال کا دن بدل گیا اور 21 دسمبر کی بجائے فروری اور مارچ میں منایا جانے لگا چونکہ یہ بدھ مذہب کی وجہ سے تھا اس لیے بون مذہب کے ماننے والے اس دن کو نیا سال سمجھتے ہیں۔ اور اہلیان بلتستان جو کبھی اسلام کی آمد سے قبل بون مذہب اور بدھ مذہب کا گڑھ تھا انہوں نے اپنے اصل دن منانے کا سلسلہ جاری رکھا اور اسلام کی آمد کے بعد بھی یہ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔
تبتی کلینڈر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ہر سال کا اپنا ایک نام ہوتا ہے جو ایک خاص ترتیب کی وجہ سے مل رہا ہوتا ہے وہ ترتیب یہ ہے کہ تبتی سال کو بارہ جانوروں کے نام سے موسوم کیا ہوا ہے جو یہ ہیں
1۔خرگوش 2۔ڈریگن 3۔سانپ 4۔گھوڑا 5۔بھیڑ 6۔بندر 7۔پرندہ 8۔کتا 9۔سور 10۔چوہا 11۔بیل 12۔چیتا
ہر سال جانور بدلتے رہتے ہیں اور ہر بارہ سال بعد جانور دوبارہ آتے ہیں اس بارہ سال کے عرصے کو لوسکور کہتے ہیں اور آج بھی بلتستان میں بزرگ لوگ اپنی عمر بتاتے ہوئے لوسکور کا استعمال کرتے ہیں جیسے فرض کرلیں ” میری عمر سات لوسکور ہے” یعنی میری عمر 7 لوسکور یعنی 7×12=84 سال ہے کا استمعال کرتے ہیں۔ تبتی کلینڈر میں ہر ایک سال بعد سال کی جنس بدلتی رہتی ہے جیسے ایک سال کو مذکر کسی جانور کیلئے استعمال کیا ہے تو اگلا سال دوسرے جانور کے ساتھ مونث ہوگا جیسا کہ اگر 2010 مذکر ( مرد) چیتے کا سال تھا تو 2011 مونث (زنانہ) خرگوش کا سال اسی طرح ہر سال، سال کی جنس بھی بدلتی رہتی ہے۔ اسی طرح تبتی کلینڈر میں پانچ عناصر ہیں جو ہر دوسرے سال بدل جاتے ہیں یعنی یہ ایک دفعہ مردانہ اور ایک دفعہ زنانہ عنصر کے ساتھ آتے ہیں پانچ عناصر یہ ہیں ۔
۱آگ، ۲ زمین، ۳ لوہا، ۴ پانی، ۵ لکڑی،
عناصر ہر دوسرے سال اس طرح سے بدلتے ہیں جیسے 1966 جو تبتی سال کے مطابق 2093 ہے کا نام ” مے فو ہرتا لو ” ( آگ مردانہ گھوڑا ) تھا اور 2094 یعنی 1967 “مے مو لوک لو”( آگ زنانہ بھیڑ کا سال) تھا۔ 2022 تبتی کلینڈر کے مطابق 2149 تھا اور اس کا نام ” چھو فو ستق لو” ( پانی مردانہ چیتے کا سال) تھا اور 2023 تبتی کلینڈر کے مطابق 2150 اور اس کا نام ” چھو مو یوس لو”(پانی زنانہ خرگوش کا سال) ہے اور 2151 یعنی 2024 ” شینگ فو بروک لو” لکڑی مردانہ ڈریگن کا سال ہوگا۔ اسی فارمولے کے تحت ہم کسی بھی سال کا نام معلوم کرسکتے ہیں۔ اسی طرح ہر 60 سال بعد ہر جانور اسی عنصر اور جنس کے ساتھ دوبارہ آتا ہے جسے “تروک فچو کھور” یعنی ساٹھ سالہ گردش کہتے ہیں اس کی ابتدا غالباً 1024ء میں شروع ہوئی اور یہ اپنے سترویں دورانیئے میں ہے۔
بلتی یا تبتی زبان میں سال کو “لو”، کلینڈر کو “لو تھو”، کہا جاتا ہے ساتھ میں مہینے کو “لزا”، کہا جاتا ہے اسی طرح دن کو “جق”، مہینے کی پہلی یا یکم تاریخ کو چاند کے حساب سے “ژھٔس جق” یعنی چاند دیکھنے کا دن اور شمسی حساب سے “نیئن جق” یعنی سورج کا دن کہا جاتا ہے، اس کے علاؤہ وقت کو “دوس ژھود”، ہفتے کو “بدون کھور”، اور دور یا ٹائم پوچھنے کیلئے عام طور پر”وخ” کا استعمال کیا جاتا 

Jashn-e-Mayfang Skardu Baltistan
Jashn-e-Mayfang Skardu Baltistan

ہے۔

سال کی ابتدا چونکہ بدھ دور میں بدل دی گئی جیسا کہ اوپر بیان کیا تو تبت میں اور بلتستان میں نیا سال الگ مہینے میں منایا جاتا ہے بلتستان میں آج بھی اسی پرانے تہذیب کے حوالے سے منایا اور سمجھا جاتا ہے۔ اس دن پورے بلتستان میں مے فنگ کا تہوار بھی دن لمبے اور رات چھوٹے ہونے پر منایا جاتا ہے جو تبتی کلینڈر کے ابتداء کی علامت ہے جو یہاں کے لوگوں کی خوداری کو ظاہر کرتا ہے کہ دو دو مذاہب کے بدلنے کے باوجود اپنے تہذیب و ثقافت کو زندہ رکھا اسی طرح تبت کے مشہور ہیرو رگیالفو کیسر کی داستان کو زندہ رکھا مگر پچھلے کچھ عرصے یہ معدوم ہو گیا ہے۔ اگر مذہب ان چیزوں سے روکتا تو ایران میں آج بھی ان کی قدیم قبل از اسلام روایتی داستان گلگامش بڑے زور شور سے سنی جاتی ہے مگر ان کے علماء اس سلسلے میں انہیں نہیں روکتے اسی طرح سعودی عرب کا شاہی خاندان پوری دنیا کے سامنے اپنا تلوار رقص کرتا ہے تو ان کے علماء بھی کچھ نہیں کہتے کیونکہ ثقافت ایک شناخت ہوتی ہے جو قوموں کو زندہ رکھتی ہے ورنہ اگر ہم فرض کرلیں کہ اگر ہم اپنے تمام ثقافت اور زبان کو ختم کردیں اور مثال کے طور پر ترقی کے نام پر کسی اور ثقافت کو اپنائیں تو کچھ عرصے بعد ہم ثقافتی طور پر مکمل ختم ہو جائیں گے اور ہمارا شناخت ختم ہو جائے گا اور بے شناخت قومیں آخر ختم ہو جاتی ہیں۔ ہاں اگر ثقافت میں کچھ شریعت سے متصادم ہے تو وہ الگ بات ہے اور ضرور اس میں اصلاح ہونی چاہیے۔ آج ہمارے ہاں تبت بلتستان آرٹس کونسل نے اپنے قیمتی ثقافتی تہواروں کو دوبارہ زندہ رکھنے کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے اور پچھلے ایک ڈیڑھ سو سالوں سے معدوم ہوتی ثقافت کو محفوظ رکھنے میں کوشاں ہیں اور آج بھی ہمارے سنجیدہ علماء، سیاستدان، طلاب، اساتذہ اور باشعور لوگ اپنے ثقافت و زبان کو محفوظ رکھنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں جیسے کہ ہمارے نوجوان علماء اور طلاب بھی اپنے ثقافتی ناموں کا استعمال کرسکتے ہیں تاکہ ہماری ایک مضبوط شناخت برقرار رہ سکے اور ہماری مذہبی دعا کی کتابوں کا ہماری زبان میں ترجمہ ہونا چاہیے عربی کی فضیلت اپنی جگہ مگر ہمیں اس کی سمجھ ہی نہیں آتی تو کیا فائدے تو ان دعاؤں کے مجموعوں کا اپنی زبان میں ترجمہ ہونے سے ہم ان دعاؤں کی اصل روح تک پہنچ سکیں گے جیسے ہم نوحے یا قصیدہ اپنی زبان میں پڑھتے ہیں اسطرح دعا کو بھی اپنی زبان میں پڑھنا چاہیے تاکہ کم از کم سمجھ تو ائے۔


Share Post

Recommended for you