جب علی شیر خان انچھن ‘دی گریڈ بلتستان ڈاینیسٹی’ کی جنگ کے لیے چترال میں تھے۔ اپ کی زوجہ نے کم سن اور عمر رسیدہ افراد جو جنگ کے لیے جانے کے اہل نا ہو، ان سے دو تاریخی کام کروایے۔
گنگوپی ہرکونگ جس سے ایک واسع رغبے کو کاشتکاری کے لیے کارآمد بنایا۔ جو کی اس دور میں معاشی بہالی کے لیے اہمیت رکھتا تھا۔
دوسرا اہم کام ملکہ نے کھرپوچھو کے لیے ایک آساں راستہ بنایا۔ جوکی ایک بہت کٹھن کام تھا۔
شیر خان انچھن کے واپس پہنچتے ہی مندوق رگیالمو نے اپنے کارنامے پیش کرنے کی درخواست کی۔ جب بادشاہ نے کاشتکاری کیلئے نالا بنانے کا سنا تو بہت خوش ہوا۔ لیکن جب ملکہ نے محل کے راستہ کا کھا تو بادشاہ جلال میں اپنے مقام سے کھڑا ہوا۔
اس سے قبل محل تک ایک ہی کٹھن راستہ تھا اور وہاں سے جانا بہت مشکل تھا۔ کوئی دشمن کھرپوچھو کھر تک کسی صورت نہیں پونچھ سکتے تھے۔ جو اس راستے کی وجہ سے ایک آساں نشانہ بن سکتا تھا۔
بادشاہ نے اس وقت ایک تاریخی جملا کہا، اگر کاشتکاری کا نظام نہ بناتے تو میں تیرا سر تن سے جدا کر دیتا۔ اب تمہیں نا گنگو ہرکونگ بنانے کا انعام ہے اور نا کھرپوچھو کیلئے راستہ بنانے کی سزا۔
کچھ صدیوں بعد اسی راستے کو استعمال کرتے ہوئے سکردو کی سلطنت کو ڈوگرہ فوج سے شکشت ہوئی۔