(مظہرِ کبریاٸی)
دریاٸے سندھ: ایک کہانی ایک روایت
(ڈاکٹر ریاض رضی)
میرے پاٸینِ پا دریاٸے سندھ بہتا ہے۔ صدیوں سے اِنسانی آبادی کو سیراب کرنے والا اور پیاسے چرند، پرند اور دیگر حیوانوں کی ضرورتیں پوری کرنے والا یہ دریا اپنی لمباٸی اور ہیٸت کے اعتبار سے مُنفرد حیثیت رکھتا ہے۔ ایک کہانی یا روایت کے مطابق آج سے کم و بیش تین یا چار ہزار سال قبل دریا سندھ کا رُخ موجودہ ہندوستان کی ریاست گُجرات کی طرف تھا۔ اِتفاق کی بات ہے کہ جس جگہ کی نشاندہی کی جاتی ہے اُس کا ایک سِرا پاکستان کے صوبہ سندھ سے جا ملتا ہے۔ جبکہ آج بھی یہ دریا بلتستان، کارگل لداخ سے اپنا سفر شروع کرتا ہے اور پنجاب، خیبرپختونخواہ، بلوچستان، سندھ کی زمینوں کو سیراب کرتے ہوٸے بحیرہ عرب میں جاگرتا ہے۔ عجیب مماثلت ہے کہ شناء اور سندھی زبان میں دریا کو ”سِندھ“ کہا جاتا ہے۔ مُرورِ زمانے کے ساتھ (غالباً طوفانِ نوح علیہ السلام کے بعد) اِس دریا کا رُخ گجرات کے بجاٸے موجودہ مقام (بلتستان سے سندھ) کی طرف موڑ گیا۔
(نوٹ: یہ کوٸی تحقیق پر مبنی کلام نہیں۔ روایات اور آثار پر مبنی دعویٰ ہے۔ مُمکن ہے کہ اگر تحقیق کی نیت سے چھان بین کی جاٸے تو کسی قدر معلومات حاصل ہوجاٸیں)
جس مقام پر میں کھڑا ہوں وہ وادی گنجی اور یلبو کے درمیان سنگم کا کام دیتا ہے۔ اگر داٸیں طرف حرکت کریں گے تو خمیوداس واقع ہے اور باٸیں طرف کا راستہ یلبو کی طرف لے جاتا ہے۔ آج رمضان کا پہلا روزہ مکمل ہوا چاہتا ہے۔ اب سے ٹھیک 50 منٹ بعد افطاری کا وقت ہوگا۔ بھوک اور پیاس کی ملی جُلی کیفیت نے مُضطرب کردیا اور چہل قدمی (روایتی واک) کی نیت سے میں رنگرو داس (ڈموسر) کی طرف نکلا۔ پہاڑی کی بُلندی چڑھتے چڑھتے اگرچہ میری سانسیں پھول رہی ہیں لیکن اندورنی طور پر مجھے ایک سُکون سا محسوس ہورہا ہے۔ نہ دُنیا کے جھمیلے اور نہ ہی کسی کی بوجھل گفتگو (جس میں ہاں، ہوں اور بولو جیسے الفاظ کے ذریعے گھنٹوں وقت کا ضیاع ہوتا ہے)، کسی کی ناراضگی کا بھی کوٸی خُوف نہیں کہ منانے کی فکر میں قدموں تک بھی گرنے کی نوبت آتی ہے (میں تمہارے پیر پکڑتا ہوں، خدا کےلٸے اب تو ناراضگی ختم کرو)۔ دُنیا کی سنگینوں سے بے پرواہ ہوکر صرف اور صرف خود کی ذات تک محدود ہونے کا نادر موقع ملتا ہے۔ کٸی طرح کی سوچیں اور خیالات جکڑ لیتے ہیں۔ غیر اِرادی طور پر افکار بھی وضع ہوتے ہیں اور بعض افکار کاٸنات کی وُسعت پر غور کرنے کا باعث بھی بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ چھوٹی سی پہاڑی جو قدم بہ قدم چٹیل پتھروں کی مجموعہ نظر آتی ہے، دعوتِ فکر دیتی ہے کہ اکڑ اکڑ کر چلنے سے بہتر ہے کہ ایک نظر اپنی جسامت کی طرف کرلو، ایک ذرا سا پتھر کیا سِرکا تمہارا نام و نشان تک مٹ جاٸے گا۔ جس خُدا کی قدرت کے سامنے ہم ایک عاجز بندے ہیں اُس کے سامنے گُستاخی اور بے ادبی کرنے سے قبل ہزار بار سوچیں اور تفکر کریں کہ ہماری حیثیت کیا ہے؟ یہی ناکہ پل بھر میں زندہ ہیں تو پل بھر میں موت کی آغوش میں چلے گٸے۔ نہیں معلوم کہ وہ موت اِس طرح کی کسی پہاڑی سے گرنے سے ہوسکتی ہے یا دریا بُرد ہونے سے فنا ہوا جاسکتا ہے۔ مظاہرِ قدرت کا برابر مُشاہدہ اور کسی قدر مطالعہ بھی ہمیں ربِ کاٸنات کی عظیم بُزرگی کا اِحساس دلاتا ہے۔ ہم اپنے غرور و گھمنڈ میں لاکھ اللہ کے نافرمان قرار پاٸیں لیکن اُس مالک و رازق نے کبھی ہماری روش دیکھ کر عطاء نہیں کیا بلکہ اپنی رحمت کی وُسعت کو دیکھ کر کرم کیا ہے۔ بعض اوقات اِنسان دولت پر اِتراتا ہے۔ کبھی عہدوں کی بندر بانٹ سے مستفیض ہوتے ہوٸے فخر محسوس کرتا ہے اور کبھی عالی شان رہاٸش و سواری (بنگلہ،گاڑی) کو سرمایہ کل سمجھتے ہوٸے بگاڑ کا راستہ اِختیار کرتا ہے۔ کبھی شہرت و عزت اور حُسن پر بھی ناز کرتا ہے اور الہڑ جوانی کا تو بے باک بادشاہ واقع ہوا ہے۔ اِنسان فکر کیوں نہیں کرتا کہ مناظرِ قدرت و مظاہرِ فطرت کی جس قدر ہیٸت و ہیبت ہے اُس کا عشرِ عشیر بھی اُس کی بس کی بات نہیں۔ جب کبھی میں اِن مناظر کو ملاحظہ کرتا ہوں، میری روح کو ایک تازگی اور راحت محسوس ہوتی ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اِنسان روز اِن سے قریب ہونے کی کوشش کرے اور گہری فکر کو بروٸے کار لاتے ہوٸے اللہ ربُ العزت کی راہ کو اِختیار کرلے۔ شاید کہ صدیوں پر محیط اِنسان زندگی میں کوٸی بدلاٶ آجاٸے۔ خصوصاً ہمارے جیسے بے پرواہ اِنسانوں کےلٸے ہر قدم ایک نٸی پہچان اور نٸی دریافت کا جواز مل سکتا ہے۔ بس! افکار کو وُسعت دینے کی ضرورت ہے۔
سرمٸی شام نے انگڑاٸی لی ہے۔ سُورج اپنی تمام پرچھاٸیوں کے ساتھ غاٸب ہورہا ہے۔ قریب ہے کی اذانِ مغرب ہوجاٸے، میں اپنے منتشر افکار کو یہی سمیٹ لیتا ہوں۔ انشاءاللہ پھر کبھی قدرت کی ایک اور نشانی پر قلم آزماٸی کا فریضہ انجام دیتے ہوٸے آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گا۔
(بقلم: ڈاکٹر رضی، یکم رمضانُ المُبارک: 25 اپریل2020ء)