بلتستان یونیورسٹی نے کواردو میں مقدس صلیب کا نشان دریافت کر لیا

Share Post

ابھی چند دن پہلے اس موضع کے بارے میں دو خبریں سننے اور پڑھنے کو ملیں۔
پہلی خبر یہ ہے کہ’’ موضوع سترنگدونگمو کے سرکردگان نے بلتستان یونیورسٹی کے لئے200 کنال اراضی کا عطیہ کیا ہے ‘‘جسے یونیورسٹی کے ذمہ داروں کے مطابق یونیورسٹی کی ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے لئے استعمال میں لائی جائے گی۔
چند دن کے بعد ایک انوکھی اور چونکا دینے والی خبر نظروں سے گزری وہ یہ کہ ’’بلتستان یونیورسٹی نے کواردو میں مقدس صلیب کا نشان دریافت کر لیا۔‘‘
باخبر ذرائع سے معلوم ہوا کہ یونیورسٹی کے لئے عطیہ کردہ زمین پر بورڈ نصب کرنے کی تقریب میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب تشریف نہیں رکھتے تھے، جو بعد میں اہل علاقہ کا شکریہ ادا کرنے آئے، اور شکریہ ادا کرتے کرتے نہیں معلوم کیسے گاؤں کے بالائی حصے تک جا پہنچے اور بلتی فن تعمیر کے ایک شاہکار پتھر کے سامنے پوجا پاٹ کرنے لگے ! اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
وی سی صاحب نے اپنے دورے کے اختتام پر اس پتھر کو صلیب مقدس قرار دیتے ہوئے نہ فقط بلتستان کی تاریخ میں تحریف کرنے کی ناکام کوشش کی، بلکہ ہمارے آباء و اجداد کو عیسائی مذہب کے پیروکار قرار دے کر ان مؤمن اور شیعہ اثناعشری مسلمان آباء و اجداد کی ارواح کو تڑپا کر رکھ دیا۔
ابھی چونکہ یہ خبر پورے بلتستان کی سطح پر ایک چونکا دینے والی خبر تھی، اور دوسری طرف سے وی سی صاحب اور ان کے ہم فکر افراد شاید ایسی ہی خبروں کی تاک میں بیٹھے تھے، لہذا یہ خبر سوشل میڈیا کے ذریعے سے جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، اور ہمارے سوشل میڈیا کے اندھے مقلدین وی سی صاحب کو دادو تحسین دینے کے ساتھ ساتھ خیالی صلیب کی تصویر کے سامنے کورنِش کرتے ہوئے بھی دیکھے گئے۔
موجودہ صورتحال میں اس پتھر کی اصل حقیقت سے پردہ اٹھانے اور بلتستان کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششوں کا سدّباب کرنے کو بہت ضروری سمجھا؛ اسی طرح اپنے علاقے کی علم دوستی کا صلہ آباء و اجداد کی توہین کے ذریعے دینے والوں کو جواب دینابھی اپنا شرعی اور اخلاقی فریضہ سمجھتے ہوئے کچھ سطریں رقم کر رہا ہوں۔
مقدس صلیب یا بلتی فن تعمیر کا شاہکار..؟
مذکورہ بالا پتھر جس کو وی سی صاحب اور ان کی ٹیم صلیب مقدس قرار دے کر غیر قابل بخشش خطاؤں کا مرتکب ہو رہے ہیں وہ پتھر نہ کوئی صلیب ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا مذہبی نشان؛ بلکہ حقیقت میں یہ بلتی فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ جسے بلتی زبان میں ’’فَلِی‘‘ (Fali)، انگلش میں [Copital of a column]، فارسی میں ’’سَرسُتون‘‘ اور عربی ادب میں ’’رئیس العمود‘‘ یا ’’ستون العمود‘‘ کہتے ہیں۔ جو بلتی طرز تعمیر کے ستونوں کا بالائی حصہ ہے جس پر شہتیر اور بیم رکھے جاتے ہیں۔
اگر جامعہ بلتستان کی وہ ٹیم جنہوں نے بزعمِ خود اس پتھر کی زیارت کرنے کی توفیق حاصل کی، موضع سترنگدونگمو کے بزرگ، تعلیم یافتہ شخصیات اور علماء کی طرف رجوع کرتی اور اس پتھر کے بارے میں استفسار کرتی تووہ یقیناً اس پتھر کی تاریخ بیان کرتے؛ لیکن انہوں نے تو تاریخ شناس افراد سے ملنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی؛ بلکہ وہم وگماں کے بھروسے پر تاریکیوں میں عقل کے گھوڑے دوڑا کراس پتھر کو آسمانوں اور جنت سے اترا ہوا صلیب قرار دیا، اور اپنی “ریسرچ ٹیم” کی ساکھ کو بھی متاثر کیا ۔
اس پتھر کی تاریخ کے حوالے سے موضع سترنگدونگمو کے بزرگ علمائے کرام، سرکردگان اور سماجی شخصیات کا کہنا ہے کہ :گاؤں کے بالائی حصے پر صرف یہ ’’فَلی‘‘ہی نہیں؛ بلکہ ’’اپوسی ہرکہ‘‘ یا ’’اپو دوکسی ہرکہ‘‘ نامی چھوٹی سی نہر کے کنارے سنگ مرمر کا ایک عدد ’’ ستون‘‘بھی موجود تھا۔ بعض عینی شاہدین کے مطابق وہ ستون ٹوٹ چکا تھا، اس کے ساتھ ہی سنگ مرمر سے ہی تراشیدہ دروازے کی دہلیز (چوکھٹ) اور ستون کا نچلا حصہ بھی، جس پر ستون کو رکھا جاتا ہے، موجود تھا۔ تھوڑے سے فاصلے پر مشرق کی طرف سنگ مرمر کا محراب تھا جسے دیوار میں نصب کر کے رکھا ہوا تھا۔ جس جگہ موجودہ ’’فلی‘‘ پائی جاتی ہے، وہاں اسی کی مانند ایک اور ’’فلی‘‘ بھی تھی۔
ان چھ چیزوں کی موجودگی کے بارے میں عینی شاہدین کی باتیں نقل کرنے کے بعد آئیے ان کا تاریخی سفر بھی ملاحظہ کرتے ہیں، کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ بلتی فن تعمیر کے ان شہ پاروں کا کیا انجام ہوا..؟
علاقے کی تاریخ شناس بزرگ شخصیات کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ اور آثار قدیمہ کی اہمیت کا علم نہ ہونے کی وجہ سےایک (شینا زبان) ٹھیکیدار نے بعض پتھروں کو توڑ کر چونا بنانے کے لئے استعمال کیا ،اور بعض دوسرے پتھروں کو کچھ لوگوں نے توڑ کر دو مسجدوں کی تعمیر میں استعمال کیا۔
ان پتھروں کو یہاں تراشنے کی تاریخ، تراشنے والوں اور تراشنے کے مقاصد سے متعلق کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی؛ البتہ بعض بزرگوں کا کہنا ہے کہ انہیں راجہ علی شیر خان انچن کی بیگم ’’مندوق ڑگیلمو‘‘ کے محل ’’مندوق کھر‘‘ کے لئے تراشا گیا تھا، لیکن اسے یہاں سے سکردو مندوق کھر منتقل نہ کئے جانے کی وجوہات کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس زمانے میں ذرائع نقل و حمل کی مشکلات اور پھر دربار کے سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے یہ پتھر یہیں پر پڑے رہے ۔ مندوق کھر سے بہت دور دریا کے اس پار ان پتھروں کو تراشنے کی وجہ یہاں پر موجود مرغوب سفید سنگِ مرمر ہوسکتے ہیں جو ماضی قریب تک موجود تھے،اور چونا بنانے کی بھٹی کا مشاہدہ ہم نے خود اپنے بچپن میں کیا ہے۔
یہاں تک یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ پتھر نہ تو چوتھے آسمان سے حضرت عیسی علیہ السلام نے وی سی صاحب کو تحفہ بھیجا ہے اور نہ ہی جنت سے رضوان جنت لے آئے ہیں؛ بلکہ مندوق کھر ،یا کسی دوسری شاہی عمارت ہی سہی ،کی تعمیر کے لئے تراشے گئے پتھر ہیں جن میں سے بیشتر ناپید ہوگئے ہیں اور فقط یہی ایک سرستون(فلی) رہ گیا ہے۔
اب آتے ہیں اس پتھر کی آڑ میں بلتستان یونیورسٹی کی طرف سے علم دوست اہل علاقہ پر کئے گئے نا انصافیوں کی طرف۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ موضع سترنگدونگمو کی طرف سے بلتستان یونیورسٹی کے لئے ۲۰۰ کنال زمین عطیہ کرنے پر وی سی صاحب یا دیگر ذمہ داران پرنٹ اور سوشل میڈیا پر اہلیان سترنگدونگمو کواردو کا رسماًشکریہ ادا کرتے اور ان کی علم دوستی کو خراج تحسین پیش کرتے، لیکن ہوا کچھ یوں کہ کواردو کے عوام کی طرف سے زمین عطیہ کرنے کی خبر ایک بار چلی ؛جبکہ موہوم صلیب کی خبر بار بار اپنے سوشل میڈیا پیجز پر لگاتے رہے، اور پچھلے ایک ہفتے سے مسلسل بلتستان کی تاریخ اور خاص طور پر موضع سترنگدونگمو کی تاریخ بگاڑنے کی مذموم کوششیں ہو رہی ہیں۔
یہاں تک کہ ڈاکٹر ذاکر حسین ذاکر ، نامی نام نہاد اسکالر صاحب کہتے ہیں: ’’ مقدس صلیب کا یہ شاہکار بلتستان میں مسیحی عقیدت مندوں کی اہم ترین نشانی معلوم ہوتا ہے… اس عظیم صلیب کو گاؤں کی سطح سے کافی اونچائی پر نہایت عقیدت سے تراشا ہےتاکہ اس کی برکات سے پوری وادی مستفید ہو سکے…!!!‘‘
اس نام نہاد ’’ریسرچ ٹیم‘‘ پر جتنا تعجب کرے ، کم ہے؛ بلکہ ان کے “رجما بالغیب” کی وجہ سے ان کی علمی یتیمی پر رونا آتا ہے۔ اگر تھوڑی سی زحمت کر کے علاقے کے لوگوں سے اس پتھر اور علاقے کی تاریخ کے بارے میں پوچھا جاتا تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجاتا۔ کیونکہ گلشن آباد گاؤں جو اس وقت ۷۰ کے قریب چولہوں پر مشتمل ہے، اس گاؤں کو ’’اپو اکبر‘‘ نامی بزرگ نے آباد کیا ہے۔ اس سے پہلے یہاں کوئی آبادی نہیں تھی۔ اپواکبر کہاں سے آکر یہاں آباد ہوئے اور کس تاریخ میں یہاں آباد ہوئے اس بارے میں کوئی دقیق معلومات تو نہیں ہے لیکن ایک بات حتمی ہے کہ اپواکبر ایک شیعہ اثناعشری مسلمان تھے ، جو اپوچو سید علی طوسی ؒ کے کواردو میں ساکن ہونے سے پہلے یہاں آکر آباد ہوچکے تھے۔ اپو اکبر کا بڑا بیٹا ابوالحسن کواردوی کشمیر میں زیر تعلیم تھے اسی دوران طوسی برادران (سید علیؒ، سید حیدرؒ اور سید محمودؒ) نے تبلیغ کے لئے بلتستان آتے ہوئے ابوالحسن کواردوی کو مترجم کے عنوان سے اپنے ساتھ لایا، اور اپوچو سید علی ؒ نے اسی لئے کواردو آستانہ جامع مسجد کے مجالس و محافل کے اختیارات اسی خاندان کے نام لکھ دیا۔
اس سے بڑھ کر اور کیا ناانصافی ہوسکتی ہے کہ جس گاؤں کی بنیاد اسلامی مبلغین نے رکھی ہو اس گاؤں کے باسیوں کو عیسائی مذہب قرار دیا جائے۔ اور وہاں کے ثقافتی فن پاروں کو صلیب مقدس بتایا جائے۔
آخری بات:
بلتستان یونیورسٹی کے ذمہ داروں کوچاہئے کہ موضع سترنگدونگمو کے علم دوستی سے بھرپور عطیے کا صلہ اس طرح بدترین انداز میں دینے پر اہل علاقہ سے واضح الفاظ میں معذرت خواہی کرے، اور آئندہ ایسی غیر سنجیدہ اور غیر علمی حرکتوں سے بازرہے!تاکہ جامعہ بلتستان کے اس تازہ نہال کی ساکھ متاثر نہ ہو۔
امید ہے کہ مذکورہ “غیر سنجیدہ انکشاف” کے پیچھے کوئی بیرونی ہاتھ یا سازش کارفرما نہیں ہوگی؛ ورنہ ایسی چودہ طبق روشن کرنے والی تحقیقات بیرونی طاقتوں کو یہاں قدم جمانے کا موقع فراہم کرسکتی ہیں، جس کی تمام تر ذمہ داری یونیورسٹی انتظامیہ خاص طور پر وی سی صاحب پر ہی عائد ہوتی ہے۔
اسی طرح اگر اسی پتھر کی آڑ میں علاقے کی امن کو بگاڑنے اور ماحول خراب کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کی ذمہ داری بھی مذکورہ افراد پر عائد ہوتی ہے۔


Share Post

Recommended for you

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *